کریملن کی وفادار پیامبر اور روس کے غلط معلومات پھیلانے اور پراپیگنڈہ کرنے والے پرچوش ترین افراد میں شمار ہونے والی، ماریا زاخارووا 2015 سے روسی وزارت خارجہ (ایم ایف اے)  کی ترجمان چلی آ رہی ہیں۔ وہ ایک سوویت سفارت کار کی بیٹی ہیں اور انہوں نے اپنا زیادہ تر بچپن بیجنگ میں گزارا جہاں اُن کے والد تعینیات تھے۔ زاخارووا 2005 سے لے کر 2008 تک نیویارک میں اقوام متحدہ میں روسی مشن کی پریس سروس کی سربراہ رہیں جبکہ  2011 سے لے کر 2015 تک انہوں نے ایم ایف اے کے پریس اینڈ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی نائب سربراہ کے طور پر کام کیا۔  

زاخارووا اپنے لڑاکا انداز، طنزیہ لہجے اور انتہاپسند مغرب مخالف جذبات کی وجہ سے مشہور ہیں۔ اُن کی بریفنگز میں ٹی وی کے براہ راست نشر ہونے والے پروگراموں میں صحافیوں کو دھمکیاں دینا یا چبھتے ہوئے سوالوں کے غصے سے جواب دینے جیسی غیرسفارتی حرکات شامل ہوتی ہیں۔ وہ کریملن کے وائٹ ہاؤس کے مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کی بطور سرکاری مہمان میزبانی کرنے کا دعویٰ کرنے جیسے انتہائی مضحکہ خیز جھوٹوں کو دہرانے سے بھی نہیں ہچکچاتیں۔ اسی طرح وہ بظاہر اولمپک کے روسی کھلاڑیوں کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے “دا پریس” نامی نقلی آدمی کو مکے مارتے ہوئے اپنی ویڈیو بنواتی ہیں اور اس جیسا نامناسب ویڈیو میسیج شیئر کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ اُن کے لڑاکا انداز کا شمار اُن وجوہات میں ہوتا ہے جن کی بنا پر اُن کی بریفنگز کو یوٹیوب پر ہزاروں لوگ دیکھتے ہیں اور اُن کے فیس بک اور ٹیلیگرام ہر اکاؤنٹ پراُن کے پانچ لاکھ  سے زائد فالوورز ہیں۔

انکار کو بطور حکمت عملی اپنانا

فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر بڑے پیمانے پر کیے جانے والے بلا اشتعال حملے سے قبل زاخارووا نے روس کے جنگی منصوبوں کا انکار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جب مغربی میڈیا اس انکار کے برعکس رپورٹنگ کر رہا تھا تو وہ اس پر تواتر سے غلط معلومات پھیلانے کے الزامات لگاتی رہیں۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر فوری حملے کی رپورٹوں کو “ہسٹیریا” قرار دیا اور جھوٹا دعویٰ کیا کہ “اینگلو-سیکسن کو ہر قیمت پر جنگ چاہیے۔” حملے سے چند دن پہلے زاخارووا نے بی بی سی کے ایک انٹرویو میں اعلان کیا کہ ایک جارح کی حیثیت سے روس کی ساکھ  مغرب کی ذہنی “اختراع” ہے اور روس نے “یوکرین کے علاقے پر حملہ نہیں کیا۔” انہوں نے یہ بیان روس کے 2014 کے حملے، کرائمیا پر قبضے اور مشرقی یوکرین پر قبضے کی کوششوں کے باوجود دیا۔ فروری کے اوائل میں ایک بڑے فوجی حملے کی کریملن کی تیاریوں کو بے نقاب کرنے والی میڈیا رپورٹوں کو جھوٹا ثابت کرنے اور ان کا تمسخر اڑانے کے لیے، زاخارووا نے امریکی اور برطانوی میڈیا سے کہا کہ وہ مزید حملے کا شیڈول اُنہیں بتائیں تاکہ وہ “اپنی چھٹیوں کا پروگرام بنا سکیں۔” اس کے نو دن بعد روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔  

زاخارووا فروری 2022 سے جنگ کے بارے میں کریملن کی غلط معلومات پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کرتی چلی آ رہی ہیں۔ اِن غلط معلومات میں روس کی جانب سے یوکرین میں ایرانی ڈرونوں کے استعمال کا انکار کرنا اور روس کے فوجیوں کی طرف سے جنگی جرائم اور دیگر مظالم کے ثبوتوں کو مسترد کرنا شامل ہے۔ روسی وزارت دفاع کے ایک ماہر روسلان پخوف نے آن ایئر اعتراف کیا کہ روس یوکرین کے شہروں میں سویلین بنیادی ڈہانچوں کو نشانہ بنانے کے لیے ایرانی ڈرونوں کو استعمال کر رہا ہے۔ اس اعتراف کے بعد بھی زاخارووا یہ تکرار کرتی رہیں کہ روس کی جانب سے ایرانی ڈرون استعمال کرنے کی اطلاعات “بے بنیاد نتائج اور دور دراز کے مفروضوں کا ایک مجموعہ ہیں۔” وہ اس بات پر بھی اصرار کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں کہ روس پر جان بوجھ کر شہریوں کو ہلاک کرنے کے “بے بنیاد الزامات” لگائے گئے ہیں حالانکہ بوچا اور یوکرین کے دیگر مقامات پر روسی فوجیوں کی جانب سے کیے جانے والے جنگی جرائم کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ نیو یارک ٹائمز اور روئٹرز نے آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بوچا میں شہری اس وقت مارے گئے جب یہ شہر روس کی فوج کے کنٹرول میں تھا۔ زاخارووا نے مختلف ذرائع سے اکٹھے کیے جانے والے اُن شواہد کی بڑھتی ہوئی تعداد کو “جھوٹ” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا جن کے مطابق روسی حکام نے نو لاکھ سے لے کر 16 لاکھ  تک یوکرینی شہریوں سے پوچھ گچھ کی، حراست میں لیا اور/یا زبردستی ملک بدر کر دیا۔    

دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانا

کریملن کے اِن غیر مصدقہ دعووں کا راگ الاپتے ہوئے کہ یوکرین ماسکو کو پھنسانے کے لیے ایک “ڈرٹی بم” تیار کر رہا ہے، زاخارووا نے مغرب سے مطالبہ کیا کہ وہ “اپنے یوکرینی پروردوں کو اس خطرناک مہم جوئی کو ترک کرنے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔” انہوں نے دعویٰ کیا کہ “اشتعال انگیزی” کے اس مبینہ منصوبے کا مقصد روس پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگانا ہے۔ زاخارووا نے کہا کہ مغرب سے مزید مالی اور فوجی امداد حاصل کرنے کے لیے یوکرین “جوہری بلیک میلنگ” سے کام  لے رہا ہے۔ یوکرین نے آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو روس کی طرف سے یوکرین پر لگائے جانے والے “ڈرٹی بم” کے الزام کا جائزہ لینے کی دعوت دی۔ اِن معائنہ کاروں نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہیں کسی خفیہ جوہری سرگرمی کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ امریکہ، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے 23 اکتوبر کو ایک مشترکہ اعلامیے میں روس کے “ڈرٹی بم” کے الزام کو “سفید جھوٹ” قرار دیا اور خبردار کیا کہ روس اس الزام کو کشیدگی میں اضافہ کرنے کے لیے ایک بہانے کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ زاخارووا اور دیگر روسی حکام ڈرٹی بم  کے بارے میں اپنے بے بنیاد انتباہات کے ساتھ ساتھ یوکرین میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اپنے ارادے کا بھی بارہا انکار کر چکے ہیں۔ اس کے جواب میں امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ “اگر ولادیمیر پوتن کا [یوکرین میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا] کوئی ارادہ نہیں تو پھر وہ اس کا تذکرہ کیوں کرتے رہتے ہیں؟ وہ یوکرین سے نکل کر اِن سب باتوں کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔” 

زاخارووا عالمی غذائی تحفظ کے بارے میں روسی حکومت کی ذمہ داریوں سے توجہ ہٹانے اور خوراک کے بگڑتے ہوئے عالمی بحران پر دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوششوں کو باقاعدگی سے بڑہاوا دیتی رہتی ہیں۔ زاخارووا نے روس کی جانب سے یوکرینی اناج کو روکنے کو “مغرب اور یوکرین کی غلط معلومات” قرار دیا۔ انہوں نے مغربی ممالک پر میڈیا پر یہ افواہ پھیلانے کا جھوٹا الزام لگایا کہ ماسکو یوکرینی اناج لے جانے والے ایک بحری جہاز کو سبوتاژ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ زاخارووا نے امریکہ پر  روسی زرعی اجناس کی برآمد کو روکنے کا الزام بھی لگایا۔ انہوں نے اس حقیقت کے بارے میں بھی ابہام پیدا کیا کہ عالمی غذائی عدم تحفظ میں اضافہ یوکرین کے خلاف پوتن کی جارحانہ جنگ کی وجہ سے ہوا ہے اور یہ کہ غذائی عدم تحفظ میں یہ اضافہ اِس جارحیت کے جواب میں عائد کی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے نہیں ہوا۔ امریکی اور اتحادی شراکت داروں کی پابندیوں میں روسی زرعی اجناس کے لیے مخصوص استثناء شامل ہیں جن میں روس سے خوراک کی برآمد اور دوبارہ برآمد کی اجازت دی گئی ہے۔ جب 29 اکتوبر کو روسی حکومت نے اقوام متحدہ کی ثالثی سے طے پانے والے بحیرہ اسود کے اناج کے سمجھوتے میں اپنی شرکت کو عارضی طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا تو زاخارووا نے دعویٰ کیا کہ اناج کے سمجھوتے کو “زیلینسکی اور اس کے اُن دہشت گردوں نے ناکام بنایا ہے جن کی قیادت برطانوی ماہرین کر رہے ہیں۔” بعد ازاں اس سمجھوتے کی تجدید کر دی گئی تھی۔ زاخارووا نے یوکرین پر “خوراک کے ذریعے بلیک میل کرنے” کا الزام بھی لگایا۔  

زاخارووا امریکہ اور اس کے شراکت داروں کے درمیان اختلافات کے بیج بونے کی کوششیں بھی کر چکی ہیں۔ انہوں نے امریکہ پر یورپی یونین کے رکن ممالک کی معیشتوں کو کمزور کرنے اور انہیں یوکرین کے لیے امداد کے ذریعے “غلاموں جیسی انحصاری” میں مبتلا کرنے اور اس طرح اُنہیں “تباہی” کی طرف لے جانے کا ایک “شیطانی منصوبہ” تیار کرنے کا الزام لگایا۔ اُن کے یہ الزامات یوکرینی حکومت کی اِن سفارشات کے ردعمل کے طور پر سامنے آئے جن میں یوکرین کی فوج میں شراکت داروں کی سرمایہ کاری اور روس پر مسلسل پابندیوں کے ذریعے یوکرین کی سلامتی کو مضبوط بنانے کی بات کی گئی ہے۔ 

جن پر اتحادیوں نے پابندیاں لگائیں انہیں پوتن نے ایوارڈ دیئے

2 جون 2022 کو امریکہ کے محکمہ خارجہ نے زاخارووا پر”روسی فیڈریشن کی حکومت کی ایک عہدیدار اور  وزارت خارجہ کی ترجمان کے طور پر اِن کے کردار کی وجہ سے” پابندیاں لگائیں۔ فروری 2022 میں یورپی یونین نے اُن پر “حکومتی پروپیگنڈے کی ایک مرکزی شخصیت” کے طور پر اور “یوکرین میں روسی افواج کی تعیناتی کو فروغ دینے” کی وجہ سے پابندیاں لگائیں۔ برطانیہ، جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی زاخارووا پر پابندیاں لگا چکے ہیں۔ 

زاخارووا کا شمار اب بھی  روس کی غلط معلومات  پھیلانے والی سرکردہ شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ کریملن کی خدمت کرنے والی ایک وفادار پروپیگنڈہ  باز ہیں۔ ولادیمیر پوتن نے 2020 میں زاخارووا کو ‘آرڈر آف میرٹ’ نامی ایوارڈ دیا۔ پوتن نے زاخارووا کو یہ ایوارڈ کریملن کے جھوٹ کو پوری لگن سے پھیلانے اور “روسی خارجہ پالیسی کو عملی جامہ پہنانے میں اُن کی اعلٰی خدمات اور برسوں پر محیط جانفشاں سفارتی خدمات” کے اعتراف میں دیا گیا۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future