مارچ 18، 2024

شیلا ہوٹل

سیئول، جمہوریہ کوریا

وزیر خارجہ بلنکن: آپ کا شکریہ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ اور سب کو سہ پہر بخیر۔ میں ایک بار پھر اپنی بات کا آغاز اپنے جنوبی کوریائی دوستوں، ہمارے تمام شریک میزبانوں، اس سربراہی اجلاس میں یہاں موجود ہر ایک کا یہاں پر اکھٹا ہونے سے کرنا چاہتا ہوں۔

ہماری جمہوریتوں کی مختلف تاریخیں، مختلف طاقتیں اور مختلف چیلنج ہیں۔ مگر ہم سب اپنے لوگوں اور پوری دنیا کے لوگوں کے لیے پہلے سے زیادہ ایک محفوظ، صحت مند، خوشحال، زیادہ مشمولہ مستقبل فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

آج اس مقصد کو پورا کرنے میں رکاوٹوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ سیاسی شرکت کی راہ میں حائل طویل مدتی رکاوٹیں، بدعنوانی اور ایسی اقتصادی ترقی جس میں بڑے پیمانے پر سب کو شریک نہیں کیا جاتا۔

آج میں ایک ایسے دیرینہ مسئلے پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے چند منٹ بات کروں گا جس کی پیچیدگی اور نتیجہ خیزی میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس مسئلے کا تعلق جان بُوجھ کر دھوکہ دینے اور تقسیم کرنے والیں غلط معلومات کے چیلنج کے ساتھ ساتھ جھوٹے اور گمراہ کن مواد کی دیگر شکلوں سے ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا میں ہر ایک مسئلے اور ہر ایک ملک کے حوالے سے قابل اعتماد معلومات کا آسانی سے قابل رسا ہونا بہت حد تک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ہمیں اپنے ارد گرد کی دنیا کو سمجھنے اور اس کے ساتھ معاملات طے کرنے میں بااختیار بناتا ہے۔ یہ ایسے فیصلے ہوتے ہیں جو ہماری زندگیوں، کمیونٹیوں، ہمارے ملکوں کی صورت گری کرتے ہیں۔

لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ معلومات کی دنیا پہلے سے کہیں زیادہ پُرہجوم، زیادہ پیچیدہ، زیادہ مبہم، زیادہ مسابقتی ہو گئی ہے۔

اس کے نتیجے میں غلط معلومات کے لیے ایک آسان ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ یہ ایک ایسا ماحول ہے جس میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر اُن معروضی سچائیوں کو جھٹلا رہے ہیں جن پر کھلے معاشروں کا انحصار ہے۔

اور میرا خیال ہے کہ ہم سب کو اس کا علم ہے۔ ہم سب کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس کا تجربہ ہوا ہے۔ ایک ایسے شخص کا جو غالباً سامعین میں عمر کے لحاظ سے تھوڑا سا بڑا ہے [یہ کہنا ہے کہ] یہ دور رس نتائج کی حامل ایک  ایسی بڑی تبدیلی ہے جس کا مجھے اپنے پیشہ ورانہ زندگی اور عملی زندگی کے دوران تجربہ ہو چکا ہے۔

مجھے حکومت میں کام کرتے ہوئے 30 برس ہو گئے ہیں۔ اس دوران معلومات کی دنیا میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ جب میں نے لگ بھگ 30 برس پہلے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا تو تب کم و بیش سب لوگ ایک ہی جیسا کام کرتے تھے۔ وہ صبح اپنے اپارٹمنٹ یا اپنے گھر کا دروازہ کھولتے تھے اور اخبار اٹھاتے تھے۔ اُس وقت چند ایک اخبارات ہوا کرتے تھے جن پر ہر کوئی انحصار کرتا تھا۔ اگر آپ کے دفتر میں ٹیلی ویژن ہوتا جو کہ اُس وقت بہت کم لوگوں کے دفتروں میں ہوتا تھا تو وہ اور بات تھی۔ ورنہ امریکہ میں لوگ شام 6:30 یا شام 7:00 بجے ہمارے اے بی سی، سی بی ایس [اور] این بی ایس چینلوں میں سے کسی ایک چینل پر رات کی خبریں دیکھتے تھے۔ معلومات کے یہی بنیادی ذرائع ہوتے تھے جن پر کم و بیش سب لوگ انحصار کرتے تھے۔

 اب ہم حقیقتِ حال کی بات کرتے ہیں۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ایسا لگتا ہے کہ ہم معلومات میں جکڑے ہوئے ہیں اور ہمیں ہر سیکنڈ کے دس لاکھویں حصے میں نئی خبریں مل رہی ہوتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کا استعمال بالخصوص سوشل میڈیا اور اب مصنوعی ذہانت پر مبنی ڈیجیٹل ٹکنالجیز کا استعمال تبدیلی کی اُس سرعتی رفتار میں ڈرامائی اضافہ کر رہا ہے جس کی رفتار پہلے ہی حیرت انگیز حد تک تیز تھی۔ مگر یہ سرعتی رفتار پیدا کرنے والے عوامل نے غلط معلومات میں بھی سرعتی رفتار پیدا کر دی ہے، انتہا پسندی کی آگ کو ہوا دی ہے جس کے نتیجے میں لوگوں میں اپنی اردگرد کی دنیا کے بارے میں پائی جانے والی الجھن کا ایک عمومی احساس پیدا ہو گیا ہے۔

کووڈ وبا کے دوران غلط معلومات کی وجہ سے لاکھوں افراد کی ویکسین لگوانے میں حوصلہ شکنی ہوئی اور بعض حالات میں اس کے مہلک نتائج سامنے ہوئے۔

“Climate Scam” [موسمیاتی دھوکہ بازی] جیسے آن لائن ہیش ٹیگوں کی بھرمار موسمیاتی بحران سے نمٹنے کی کاروائیوں میں تاخیر کا باعت بن رہی ہے۔

رواں سال دنیا کے بہت سے ممالک میں انتخابات ہو رہے ہیں اور اس لحاظ سے یہ ایک غیرمعمول سال ہے۔ دنیا کی نصف آبادی اِن انتخابات میں ووٹ ڈال رہی ہے۔ اِن ملکوں کے شہریوں اور امیدواروں کو جھوٹ کے ایک ایسے سیلاب کا سامنا کرنا پڑے گا جو سنگین شہری مباحثوں کا گلہ گھونٹ کر رکھے دے گا۔

ہمارے حریف، ہمارے مخالفین شکوک و شبہات، اوچھے پن اور عدم استحکام کے مزید بیج بو کر ہماری جمہوریتوں کے اندر دراڑوں کا فائدہ اٹھانے کے لیے غلط معلومات کا استعمال کر رہے ہیں۔ ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے لڑوا رہے ہیں [اور] ہمارے اداروں کو بدنام کر رہے ہیں۔

ہمارے معاشروں کے اندر کے لوگ اِن حرکیات کو مزید خراب کر رہے ہیں۔ بعض اوقات وہ یہ کام جان بُوجھ کر، بعض اوقات وہ یہ کام اُن باٹس اور الگورتھم سے متاثر ہو کر کرتے ہیں جنہیں متعصب معلومات کی تربیت دی گئی ہوتی ہے۔

افکار کی دنیا کی یہ تحریف آزادی اظہار کی کوئی بدنصیب ذیلی پیداوار نہیں ہے۔ یہ تحریف بذات خود اظہار رائے کی آزادی کے لیے ایک براہ راست خطرہ ہے۔

انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں نہ صرف ہماری رائے کے اظہار کا حق شامل ہے بلکہ یہ ہماری آزادی کا تحفظ  بھی کرتا ہے۔ اور یہاں میں اس اعلامیے کے یہ الفاظ نقل کرتا ہوں: “بغیر مداخلت کے رائے قائم کرنا۔” معلومات میں ہیرا پھیری اس بنیادی حق کو استعمال کرنے کی ہماری صلاحیت کو کمزور بناتی ہے۔

معلومات کے زیادہ سے زیادہ مستحکم ماحول کی تعمیر ہماری قومی سلامتی کا ایک اہم مفاد ہے۔ یہ ہماری سفارت کاری کی بھی ایک انتہائی اہم ترجیح ہے۔ اور میں اُن طریقوں میں سے کچھ پر بات کرنا چاہتا ہوں جن کے ذریعے ہم اس مقصد کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس کا آغاز میں یہ بتانے سے کر رہا ہوں کہ ہم غلط معلومات کو بے نقاب کرنا، خلل ڈالنا اوراِن سے باز رکھنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

محکمہ خارجہ کا گلوبل انگیجمنٹ سینٹر معلومات کی غیر ملکی ہیرا پھیری کی نشاندہی کرنے، تجزیے کرنے، اور معلومات میں غیرملکی ہیرا پھیری کو آشکار کرنے کی ہماری حکومت کے تمام اداروں اور کثیرالجہتی کوششوں میں رابطہ کاری کا کام کر رہا ہے۔

گزشتہ ستمبر میں ہم نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ چینی حکومت نے پروپیگنڈا پھیلانے اور عالمی معلوماتی ماحول کو توڑنے مروڑ کر پیش کرنے پر کس طرح اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ افریقہ میں کیبل ٹی وی پلیٹ فارموں کو خریدنا اور بین الاقوامی نیوز چینلوں کو سبسکرپشن کی سہولتوں سے محروم کرنا اس کی مثالیں ہیں۔

اسی طرح  جنوب مشرقی ایشیا میں میڈیا کمپنیوں کو خفیہ طور پر خریدنے کے لیے مقامی ذیلی اداروں کا استعمال کرنا بھی اس کی ایک مثال ہے۔ اس کے بعد یہ میڈیا کمپنیاں پی آر سی کے حق میں خبریں چلاتی ہیں۔

ہم نے پورے مغربی نصف کرے میں یوکرین کی حمایت کو کمزور کرنے کے لیے کریملن کی اُس خفیہ مہم کو بے نقاب کیا ہے جس کے تحت روس پورے لاطینی امریکہ کے میڈیا میں اپنے ہاں تخلیق کردہ مواد میں ردوبدل کرتا ہے تاکہ یہ مقامی طور پر تیار کیا جانے والا مواد دکھائی دے۔

اثر و رسوخ کی ان کارروائیوں کو تلاش اور ان کی تشہیر کرکے ہم نے دیگر ممالک کی حکومتوں کو، میڈیا کو اور سول سوسائٹی کو ان کا سراغ لگانے اور انہیں ناکام بنانے کے قابل بنایا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ نے برازیل کی قوم پرست تنظیم میں ماسکو کی خفیہ شمولیت کو بے نقاب کیا جس کے نتیجے میں برازیل کی ایک سیاسی جماعت نے روس سے منسلکہ اِس گروہ سے تعلق رکھنے والے 50 ارکان کو اپنے ہاں سے نکال دیا۔

گمراہ کن خبروں کا خاتمہ ضروری ہے۔ مگر یہ کافی نہیں ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح ہم جھوٹ اور حقائق کو مسخ کرنے سے فوری بنیادوں پر نمٹتے ہیں اُسی طرح ہمیں اپنے آپ کو طویل مدتی بنیادوں پر زیادہ مستحکم بنانے پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔

اس کے بارے میں یوں سوچیے۔ کووڈ وبا کے دوران ہم نے بلاتکان کام کرتے ہوئے لوگوں کے بازوؤں میں ٹیکے لگانے کے ساتھ ساتھ  مستقبل کی وباؤں کو روکنے اور ان کی تیاری پر کام کیا۔ ہم بیک وقت ہیکروں کا مقابلہ کرنے اور بدنیتی پر مبنی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے سائبر سکیورٹی کے حوالے سے نئے اقدامات اٹھانے کا کام بہت تیز رفتاری سے کرتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یہ حملے کہیں تمام نیٹ ورکوں کو تباہ نہ کر دیں۔

اسی طرح  جہاں امریکہ میں ہم غلط معلومات کو بے نقاب کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں وہیں عالمی سطح پر ہم یکساں طور پر ایک کھلے، مستحکم معلوماتی ماحول کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں یعنی ایک ایسا ماحول جس میں پُرفریب پیغامات پر کم توجہ دی جاتی ہو اور جہاں سچائی کا بول بالا کیا جاتا ہو۔

ہمیں ایسی حکومتوں کی ضرورت ہے جو میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کی آن اور آف لائن حفاظت پر عمل کرتی ہوں کیونکہ ایک آزاد اور بااختیار پریس صحت مند جمہوریتوں کا مرکزی ستون ہوتا ہے۔

ہمیں شفاف حکمرانی کو بڑھاوا دینے اور معلومات تک رسائی کو پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ صحافی اور شہری یکساں طور پر اپنے رہنماؤں کو جوابدہ ٹھہرا سکیں اور یہ جان سکیں کہ قانون سازوں نے کس قانون کے خلاف یا حق میں ووٹ دیا، حکومتی ٹھیکے کس نے حاصل کیے، اور جی ڈی پی کے اعداد و شمار جمع کرنے جیسا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے کون سے طریقے اپنائے گئے۔

ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ میڈیا سے متعلقہ ضابطہ کار پروپیگنڈے کو فروغ دینے کے لیے میڈیا پر دباؤ ڈالنے کی بجائےآزاد ہوں اور عوامی مفادات پورے کریں۔

حکومتوں کو اشتہاروں کے فنڈز کو میڈیا کے کسی مخصوص ادارے کو فروغ دینے یا سزا دینے کی بجائے منصفانہ اور شفافانہ طریقے سے مختص کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں میڈیا کمپنیوں کی مالکیت اور تقسیم کاروں کے نیٹ ورکوں کے مالکان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ شفافیت کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے پس پردہ مالک کے بارے میں جانے بغیر کوئی سیاسی یا غیر ملکی ادارہ کسی اخباری تنظیم کو خرید نہ پائے۔

ہمیں شہریت اور ابلاغ عامہ کی خواندگی میں سرمایہ کاری کرنے اور شہریوں کو حقیقت اور افسانے میں تمیز کرنے کے حوالے سے بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں بے شمار انواع کی معلومات تخلیق کرنے والی مصنوعی ذہانت جیسی ابھرتی ہوئی وہ نئی ٹکنالوجیاں خاص اہمیت کی حامل ہیں جو مواد کے کسی ماہر قاری کو بھی بیوقوت بنا سکتی ہیں۔

اس طرح کے اقدامات اٹھانے سے غلط معلومات پھیلانے والوں کے لیے پس پردہ رہ کر کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ہمارے شہریوں کو معیاری معلومات تک زیادہ رسائی حاصل ہوگی۔ اُنہیں اپنے سامنے آنے والے مواد کی درستگی کا اندازہ لگانے کے لیے بہتر وسائل دستیاب ہوں گے۔

میں آپ کو چند مثالیں دیتا ہوں کہ ہم اس کام کو جامع، مثبت انداز کو آگے بڑھانے پر کس طرح کام کر رہے ہیں۔

اس کی ایک مثال یہ ہے: چاہے یہ جنگی محاذوں سے کی جانے والی رپورٹنگ ہو یا کسی بدعنوانی کی تحقیقات ہوں، صحافی لوگوں کے لیے اہم معلومات لے کر آتے ہیں۔ حتٰی کہ پریس نے اپنے تئیں غلط معلومات کی مہموں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔

لہٰذا معلومات کے لچکدار ماحول کو فروغ دینے کے کام کے حوالے سے ہم رپورٹروں کی  مدد کر رہے ہیں کیونکہ انہیں جبر اور معاشی دباؤ کا سامنا ہے۔

ہم خطرات کا سامنا کرنے والے رپورٹروں کے اداروں کو مضبوط حفاظتی اقدامات نافذ کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ ہم اُن مہنگے اور بے بنیاد مقدمات سے متاثرہ صحافیوں کے لیے قانونی دفاعی فنڈ کے لیے رقم فراہم کر رہے ہیں جن کا مقصد ان کا منہ بند کرنا یا انہیں اُن سے یہ کام چھڑوانا ہوتا ہے۔

امریکہ صحافیوں یا انسانی حقوق کے محافظوں اور دیگر افراد کی نگرانی اور انہیں ہراساں کرنے کے لیے تجارتی سپائی ویئر کے غلط استعمال کے خلاف کاروائیاں کر رہا ہے جن میں حکومتوں اور کمپنیوں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے پابندیاں، برآمداتی کنٹرول، ویزا پابندیوں کو بروئے کار لانا شامل ہے۔

گزشتہ برس کی جمہوریت کی سربراہی کانفرنس میں ہم نے اُن 10 ممالک کو اکٹھا کیا جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ تجارتی سپائی ویئر کی اس ٹیکنالوجی کو عالمی انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے مطابق استعمال کیا جائے۔ اس سال کی سربراہی کانفرنس میں ہم اعلان کرنے جا رہے ہیں کہ جنوبی کوریا، جاپان، جرمنی، فن لینڈ، پولینڈ اور آئرلینڈ پر مشتمل نصف درجن مزید ممالک اس اتحاد میں شامل ہو رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم میڈیا کے اداروں کے طویل مدتی مالی استحکام کو مضبوط بنانے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں مقامی خبریں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ مقامی خبریں ہی لوگوں کو زیادہ باخبر بناتی ہیں اور جھوٹ سے ہونے والے نقصانات کو کم کرتی ہیں۔

مثال کے طور پر مالدووا میں یو ایس ایڈ نے میڈیا کے اداروں کے ساتھ مل کر اُن کی مارکیٹنگ اور سبسکرشن کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا جس کے نتیجے میں اُن کی آمدنی میں 138 فیصد جبکہ آن لائن رسائی میں 160 فیصد اضافہ ہوا۔

امریکہ مفاد عامہ کے میڈیا کے تحفظ کا عزم کیے ہوئے ہے۔ اِس میں میڈیا کے وہ ادارے شامل ہیں جن کا کام حقائق پر مبنی ہے، ادراتی لحاظ سے آزاد ہیں، اور جنہوں نے اپنے آپ کو شہریوں کے آلودگی یا حکومتی بدعنوانی سمیت اُن مسائل کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے وقف کیا ہوا ہے جو اِن شہریوں کی فلاح و بہود کے حوالے سے اہم ہیں۔

دوسری عالمی جنگ میں وائس آف امریکہ کے نام سے گلوبل میڈیا کے امریکی ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کا شمار دنیا کے آٹھ بڑے بین الاقوامی عوامی نشریاتی اداروں میں ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے 75 سے زائد زبانوں میں ہر ہفتے کروڑوں لوگوں کو آگاہی دی جاتی ہے اور اُن سے باہمی رابطہ رکھا جاتا ہے۔

ہم نے یوکرین میں عوامی ریڈیو کی مدد کی ہے۔ اس سے ایک کروڑ ستر لاکھ یوکرینیوں کو روس کی جارحانہ جنگ کے دوران قابل اعتماد خبریں مل ہو رہی ہیں۔

جمہوریت کی پہلی سربراہی کانفرنس میں امریکہ نے ترقی پذیر ممالک میں عوامی دلچسپی کے ذرائع ابلاغ کو تقویت پہنچانے کے لیے دو کروڑ ڈالر وقف کیے۔ ہمیں خوشی ہے کہ دیگر عطیات دہندگان نے اِس ضروری عوامی خدمت کو مزید مضبوط بنانے کے لیے تین کروڑ ڈالر کے عطیات دیے ہیں۔

ایک صحت مند معلوماتی ماحول کو فروغ دینے کا دوسرا طریقہ زیادہ سے زیادہ ڈیجیٹل اور ابلاغ عامہ کی خواندگی میں سرمایہ کاری کرنا ہے۔

صحافت دنیا میں معیاری معلومات پہنچانے میں مدد کرتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ یقینی بنانے کے لیے بھی اپنی پوری کوشش کرنا ہوگی کہ مواد وصول کرنے والے قارئین، ناظرین، صارفین، سامعین سچ اور جھوٹ میں تمیز کر سکیں۔

جب آپ دیکھتے ہیں کہ کس نے حقیقی معنوں میں خود کو زیادہ مستحکم بنایا ہے، عالمی سطح پر مسخ شدہ حقائق اور جھوٹ کی کون زیادہ مزاحمت کر سکتا ہے، تو اُن میں یہ سب سے بڑا مشترکہ وصف دکھائی دیتا ہے کہ اُن میں یہ تمیز کرنے کی اہلیت ہوتی ہے کہ کیا قابل بھروسہ ہے اور کیا نہیں ہے۔

صحافت دنیا میں معیاری معلومات پہنچانے میں مدد کرتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ یقینی بنانے کے لیے بھی اپنی پوری کوشش کرنا ہوگی کہ مواد وصول کرنے والے قارئین، ناظرین، صارفین، سامعین سچ اور جھوٹ میں تمیز کر سکیں۔

جب آپ دیکھتے ہیں کہ کس نے حقیقی معنوں میں خود کو زیادہ مستحکم بنایا ہے، عالمی سطح پر مسخ شدہ حقائق اور جھوٹ کی کون زیادہ مزاحمت کر سکتا ہے، تو اُن میں یہ سب سے بڑا مشترکہ وصف دکھائی دیتا ہے کہ اُن میں یہ تمیز کرنے کی اہلیت ہوتی ہے کہ کیا قابل بھروسہ ہے اور کیا نہیں ہے۔

فن لینڈ میں، طلبا پرائمری سکول میں غلط معلومات کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ تائیوان دیہی علاقوں میں بزرگوں کو گمراہ کن پیغامات کی نشاندہی کرنے کے طریقے سکھا رہا ہے۔

اسی طرح امریکہ میں ٹیکنالوجی سے متعلق تین روزہ کیمپوں میں ٹوگو سے لے کر چلی تک نوجوان لیڈروں کو کسی مواد کے قابل اعتماد ہونے یہ نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنے میں مہارت حاصل کرنے میں مدد کی جاتی ہے۔

ہمارے ڈیجیٹل کمیونیکیشن نیٹ ورکوں کے ذریعے مشرقی ایشیا سے لے کر لاطینی امریکہ تک 10,000 صحافی اور تخلیقی پیشہ ور افراد درست معلومات کو فروغ دینے کے طریقے نکال رہے ہیں اور انہیں [لوگوں] تک پہنچا رہے ہیں۔

ہم پوری دنیا میں انگریزی کی کلاسوں کا انعقاد کرتے ہيں تاکہ لوگ جزوی طور پر آزاد خبر رساں اداروں تک رسائی حاصل کر سکیں اور اُنہیں اپنی مادری زبان میں ملکی اداروں کی طرف سے فراہم کردہ خبروں پر ہی اکتفا نہ کرنا پڑے۔

آج محکمہ خارجہ ایک جمہوری خاکہ جاری کر رہا ہے جسے ہم نے “ڈیموکریٹک روڈ میپ” کا نام دیا ہے۔ اس کا تعلق لوگوں کو معلومات کی ہیرا پھیری کے بارے میں زیادہ آگاہی دینا اور مزاحم بننے میں مدد کرنے سے ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کو مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ مواد کی پہچان کے لیے لیبل لگانے کی ترغیب دینا اس کی ایک مثال ہے جس کا مقصد صارفین کو معلوم ہو سکے کوئی زیرنظر تصویر اصلی ہے یا نہیں۔

ہمیں یقینی طور پر علم ہے کہ کہ غلط معلومات سرحدوں سے ماورا ہوتی ہیں۔ یہ پلیٹ فارموں پر موجود ہوتی ہيں۔ کوئی ایک ملک، کوئی ایک ادارہ تنہا اس چیلنج کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک صحت مند معلوماتی ماحول پیدا کرنے کا تیسرا طریقہ ہماری سفارت کاری ہے جس کے ذریعے مسائل کی مشترکہ تفہیم کے ساتھ ساتھ اِن سے نمٹنے کے لیے تخلیقی حلوں کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے۔

ہم مشترکہ اصولوں کو فروغ دینے پر کام کر رہے ہیں۔ ہم غیر ملکی مخالفین کی طرف سے معلومات میں ہیرا پھیری کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بنیادی ڈھانچے کی بنیاد پر شراکت داروں اور اتحادیوں کے مابین ہم خیالی پیدا کر رہے ہیں۔

وہ ممالک جو اس خاکے کو اپناتے ہیں وہ غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی تزویراتی حکمت عملیوں اور پالیسیوں کو تیار کرنے سے لے کر گمراہ کن مواد کا پتہ لگانے تک اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی تکنیکی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے بہت سارے اقدامات اٹھانے کا وعدہ کرتے ہیں۔

اس تعاون کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہم نے بلغاریہ سے لے کر جنوبی کوریا تک پھیلے ممالک کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ اس کے علاوہ شراکت داروں کو غلط معلومات کا تجزیہ کرنے، اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے اور اس چیلنج کے خلاف لچک  پیدا کرنے کی تربیت دی ہے۔

جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اس ہفتے اقوام متحدہ مصنوعی ذہانت کی بنياد پرغلط معلومات کا قلع قمع کرنے والے اقدامات سمیت، پائیدار ترقی کے لیے محفوظ اور قابل اعتماد مصنوعی ذہانت کو فروغ دینے کے لیے امریکی قیادت میں ایک تاریخی قرارداد منظور کرے گی۔ کل اِس سربراہی کانفرنس کا معلومات کی صداقت کا گروپ اس بات پر غور کرے گا کہ تخلیقی مصنوعی ذہانت کے تناظر میں گمراہ کن مواد کے بارے میں ہمارے ردعمل کو کیسے مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔

ہم بہترین طریقوں کا اشتراک بھی کر رہے ہیں۔ گزشتہ 30 برسوں میں میں نے جو چیزیں سیکھی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہمیں درپیش کسی بھی مسئلے کا، کہیں نہ کہیں کسی نے ہو سکتا ہے کوئی حل ڈھونڈ لیا ہو، یا کم از کم اس کا حل تلاش کرنے کا آغاز کر دیا ہو۔ اگر ہم ایک دوسرے کے ساتھ ان معلومات کا تبادلہ نہیں کر رہے تو پھر ہم سب ‘پہیے کو دوبارہ ایجاد’ کرنے کے کام پر لگے ہوئے ہیں۔ بہترین طریقوں کا اشتراک کرنا حقیقت میں ترقی کرنے کا ایک حیرت انگیز طاقتور طریقہ ہے۔

ہم فرانس کے ہمراہ او ای سی ڈی کے ‘نامکمل معلومات اور غلط معلومات کے مرکز’ کی مشترکہ سربراہی کر رہے ہیں۔ اس سے ہم حکومتوں کی عبوری حکمت عملی سے ایسی جامع پالیسیوں کی جانب جانے میں مدد کر رہے ہیں جو قابل اعتماد معلومات کو پھلنے پھولنے کے قابل بناتی ہیں۔

ہم ‘میڈیا فریڈم کولیشن’ جیسے گروپوں کے ذریعے اجتماعی کارروائیوں کو متحرک کر رہے ہیں اور چھ براعظموں پر پھیلے 50 سے زائد ممالک کو صحافیوں پر حملوں کی صورت میں اپنی آواز اٹھانے اور حکومتوں کے ساتھ رابطے کرنے کے لیے اکٹھا کر رہے ہیں۔

صحت مند معلوماتی ماحولیاتی نظام کی تعمیر میں خاص طور پر ایک فریق [نجی شعبے] کا کردار اُس کے جُثے سے کہیں بڑھکر ہے۔ سادہ الفاظ میں امریکہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ نجی شعبہ غلط معلومات سے نمٹنے کے لیے بہت کچھ کر سکتا ہے اور اسے ایسا بہرصورت کرنا چاہیے۔

گزشتہ برس ہم آن لائن معلومات کی صداقت کے اعلان کی توثیق کرنے کے لیے 30 سے ​​زائد ممالک میں شامل ہوئے۔ اس اعلامیے میں ہم نے ٹیکنالوجی کی صنعت کو اپنے الگورتھم کی شفافیت کو بہتر بنانے، سیاسی اشتہاروں سے متعلق پالیسیاں بنانے، معلوماتی ذرائع کے قابل بھروسہ ہونے کی جانچ کرنے کی خاطر اشاریے تیار کرنے جیسے اقدامات اٹھانے کی دعوت دی۔

آن لائن پلیٹ فارم غلط معلومات کے چیلنجوں سے اکیلے نہیں نمٹ سکتے اور نہ ہی ہم اُن کے بغیر اِن چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

آخر میں امریکہ مستند، فعال اور تزویراتی طریقوں سے یہ احساس لیے اپنی کہانی سنانے کا کام کر رہا ہے کہ ہمارے ملک کے بارے میں، ہماری جمہوریت کے بارے میں، اپنے شراکت داروں کے بارے میں غلط بیانیوں کو درست کرنے کے لیے ہماری حکومت کو دنیا بھر میں اعتماد اور اعتبار پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم بااثر آوازوں اور جدید دور کے پوڈکاسٹ جیسے پلیٹ فارموں کو بروۓ کار لاتے ہيں جہاں سے لوگوں کو اُن کی خبریں ملتی ہیں۔ ہم باقاعدگی سے پریس کانفرنسیں کرتے ہیں جہاں ہم اپنے آپ کو مشکل ترین سوالات کے جوابات کے لیے پیش کرتے ہیں۔ ہم عوامی سطح کے تبادلوں کا انعقاد بھی کرتے ہیں جن کے ذريعے دنیا بھر کے لوگ یہ جان سکتے ہیں کہ ہم کون ہیں اور ہمیں کیا چیزعزیز ہے۔

محکمہ خارجہ بحرہند و بحرالکاہل یا زیریں صحارا کے خطوں کو ایسے خبر رساں اداروں کی مفت خدمات فراہم کرتا ہے جن کا امریکی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ ایسوسی ایٹڈ پریس جیسے آزاد اور معتبر اور روئٹرز جیسے سخت مضامین لکھنے والے ادارے ہوتے ہیں جن میں ہماری یعنی امریکہ کی حکومت کے بارے میں لکھے جانے والے سخت مضامین بھی شامل ہوتے ہیں۔

اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرنا اور ان سے چشم پوشی کرنے کی بجائے انہیں دور کرنے کی ہماری رضامندی، اور یہ تاثر دینا کہ یہ موجود نہیں ہیں، یہ وہ عوامل ہیں جو جمہوریت کو دوسروں سے ممتاز بناتے ہیں اور انجام کار یہی وہ عوامل ہیں جو جمہوریت کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے ہیں۔

ہماری جمہوریتوں کی ایک اور پہچان یہ ہے کہ ہمارے شہری ہماری راہیں متعين کرتے ہيں اور ہمارے لیے آگے کا انتخاب واضح ہوتا ہے۔

جھوٹ اور حقائق میں تحریف اگر ہم  پر غالب آ جائیں یعنی ہم ایک دوسرے سے دور ہو جائیں تو پھر ہم اُن چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو جائیں گے جو ہماری اقوام کو درپیش ہیں۔

یا ہم اِس لمحے کا ادراک کر سکتے ہيں اور وہ کچھ کر سکتے ہیں جو جمہورتيں بہترین طریقے سے کرتی ہیں۔ ہم متنوع آوازوں اور نقطہائے نظر کا خیرمقدم کر سکتے ہیں۔ ہم تنقیدی انداز میں سوچ سکتے ہیں اور بھرپور بحث کر سکتے ہیں۔ ہم حقیقی معنوں میں آگے بڑھ سکتے ہیں اور خود کو درست کر سکتے ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا ہے کہ درست معلومات بنیادی طور پر ایک عوامی بھلائی ہے۔ یہ ہم سب کو دستیاب ہیں۔ ان سے ہم سب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ معلومات کے لیے ایک زیادہ شفاف اور مستحکم ماحول بنانے کے لیے اور اپنے ملک کے لوگوں اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک بہتر مستقبل تعمیر کرنے کے لیے ہم سب کی، اس سربراہی کانفرنس میں موجود سب کی اور ہمارے تمام شہریوں کی ضرورت ہوگی۔

آج سہ پہر آپ کی توجہ کے لیے آپ کا بہت شکریہ۔ خصوصی طور پر اُس کام کے لیے آپ کا شکریہ جو آپ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں کریں گے۔ آپ کا بہت شکریہ (تالیاں۔)

اصل عبارت پڑھنے کا لنک:

 

https://www.state.gov/building-a-more-resilient-information-environment/

 

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

# # #

 

 

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future