فیکلٹی کلب

لُوون، بیلجیم

اے پی کے میٹ لی کا سوال: اس کے بعد وزیر خارجہ بلنکن مجھے آپ سے غزہ کے بارے میں مختصرأ یہ پوچھنا ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر نےآج صبح نئی سرحدی گزرگاہوں کو کھولنے کے لیے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے کیا وہ اُن مطالبات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں جو آپ حالات کو بہتر بنانے کے لیے حکومت سے کر رہے ہیں۔  یا کیا آپ کو اب بھی کم از کم شہریوں اور امدادی کارکنوں کے تحفظ کے حوالے سے مزید اقدامات کی ضرورت ہے؟ شکریہ

وزیر خارجہ: غزہ سے متعلق میٹ، آپ کے سوال کے جواب میں ایسا ہے کہ ہم ان اقدامات کا خیرمقدم کرتے ہیں جن کا اسرائیل کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے یعنی جن کا تعلق ایریز کے راستے کو ایک نئی گزرگاہ کے طور پر کھولنے، اشدود بندرگاہ سے سامان کی کھیپوں کے براہ راست بھیجنے [اور] اردن کے راستے کے زیادہ زیادہ استعمال کرنے سے ہے۔ یہ مثبت پیش رفتیں ہیں۔ مگراصل امتحان تو اِن سے حاصل ہونے والے نتائج ہیں۔ اور یہی وہ چیز ہے جو ہم آنے والے دنوں اور آنے والے ہفتوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

کیا امداد مؤثر طریقے سے ان لوگوں تک پہنچ رہی ہے جنہیں پورے غزہ میں اس کی ضرورت ہے؟ کیا گزرگاہوں کے مقامات پر حائل رکاوٹوں اور تاخیر کا باعث بننے والے دیگر عوامل کو دور کیا جا رہا ہے؟ کیا ہمارے پاس انسانی امداد پہنچانے والے کارکنوں یعنی اُن لوگوں کو سلامتی کے ساتھ بخیروخوبی امداد پہنچانے کے قابل بنانے کے لیے تصادم کو ختم کرنے اور باہم رابطہ کاری کے لیے کوئی بہتر نظام موجود ہے؟ یہ تمام چیزیں انتہائی اہم ہیں اور ان کا نتائج کی روشنی میں دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جو بعض اقدامات ہم دیکھنا چاہتے ہیں اُن میں مستقل بنیادوں پر آنے والے ٹرکوں کی حقیقی تعداد جیسی چیزیں شامل ہیں۔ اور اِن میں نہ صرف آنے والے ٹرکوں کی تعداد بلکہ اس کے بعد متعلقہ مقامات تک ٹرکوں کا پہنچنا، انتہائی اہمیت کے حامل شمالی غزہ سمیت پورے غزہ میں امداد کی تقسیم بھی شامل ہے۔ بعض حوالوں سے ہمیں گہری تشویش ہے جس میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ تقریباً 100 فیصد آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے اور ممکنہ قحط کے واضح اشارے پائے جاتے ہیں۔ ہم اِن حالات کے خاتمے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔

درحقیقت اس کا ثبوت نتائج میں ہے اور ہم سب آنے والے دنوں میں، آنے والے ہفتوں میں اِن نتائج کو سامنے آتے ہوئے دیکھیں گے۔ اسی سے جڑی یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ ہم ورلڈ سینٹرل کچن ٹیم کے اُن ارکان کی ہلاکتوں کی ایک آزاد، مکمل، اور جامع  عوامی تحقیقات دیکھیں جو انتہائی مشکل حالات میں اُن لوگوں تک امداد پہنچانے  کی کوشش میں جانفروشی سے اپنا کام کر رہے تھے جنہیں اس کی اشد ضرورت ہے۔ لہذا ہم ان تحقیقات کو دیکھنے کے منتظر ہیں، ہم عوامی جوابدہی کے منتظر ہیں اور ہم اس کے تناظر میں احتساب ہوتا ہوا دیکھنے کے منتظر ہیں۔

یہی بات اُس بڑے چیلنج پر بھی صادق آتی ہے جو ہم شروع سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ اس چیلنج کا تعلق اُن معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کی ہولناک تعداد سے ہے جو فوجی کارروائیوں کے دوران مارے جا چکے ہیں۔ ہم اس کے بارے میں کئی بار بات کر چکے ہیں۔ یہ ایک ایسے دشمن سے نمٹنے کا ایک انوکھا چیلنج ہے جو شہری آبادی میں گھل مل گیا ہے، جو ان کے پیچھے، ان کے نیچے، سرنگوں میں، مساجد میں، سکولوں میں، اپارٹمنٹوں کی عمارتوں میں چھپا ہوا ہے۔ تاہم  شہریوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنا، انہیں ترجیح بنانا اسرائیل کے فرض اور اس کی ذمہ داری کا ایک نازک امتحان بھی ہے۔

لہذا ہم آنے والے دنوں اور ہفتوں میں جو اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں اُن کا تعلق ترجیحات سے ہے، انسانی امداد میں تیزی سے کیے جانے والے بڑے  اضافے سے ہے، اسے برقرار رکھنے اور ضرورت مند لوگوں تک پہنچانے سے ہے، اس بات کو یقینی بنانے سے ہے کہ جو لوگ یہ امداد فراہم کر رہے ہیں اُنہیں تحفظ اور سلامتی حاصل ہو، اور اُن سویلین شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنے سے ہے جو حماس کی وجہ سے ہونے والی اس دوطرفہ فائرنگ میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ہم آنے والے دنوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اِس دوطرفہ فائرنگ میں پھنسے رہنے، مارے جانے، زخمی ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتے۔

اصل عبارت کا لنک:

  https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-and-u-s-eu-trade-and-technology-council-ministerial-co-chairs-at-sixth-u-s-eu-trade-and-technology-council-joint-press-availability

/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

#  # #

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future