امریکی محکمہ خارجہ
ترجمان کا دفتر
17 مارچ، 2024
شیلا ہوٹل
سیئول، جمہوریہ کوریا

وزیر خارجہ بلنکن: آپ سب کا شکریہ اور ایک بار پھر صبح بخیر۔ شکریہ۔

میں ایک مرتبہ پھر صدر یون اور وزیر خارجہ چو کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں ںے ہمیں انقلابی قوتوں میں سے ایک ایسی انقلابی قوت پر بات چیت کے لیے اکٹھا کیا ہے جو ہمارے مستقبل، ہماری دنیا اور ہماری جمہوریتوں کو متشکل کر رہی ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت کی قوت ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں ہم حکومتوں، معاشروں، لوگوں اور اداروں کی حیثیت سے جو فیصلے کریں گے ان پر مصنوعی ذہانت کے گہرے اثرات کی بات کوئی مبالغہ نہیں ہو گی۔ یقیناً آنے والے کئی سالوں اور کئی دہائیوں میں مصنوعی ذہانت لوگوں کی زندگیوں پر نمایاں طور سے اثرانداز ہو گی۔ یہ یقینی بنانے میں ہمارا بہت اہم مفاد ہے کہ مصنوعی ذہانت کے میدان میں ہونے والی اختراع کی قیادت جمہوریتوں کے ہاتھ میں ہو تاکہ ہم اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلق اصول، ضابطے اور قوانین طے کرنے میں دنیا کی قیادت کر سکیں۔ یہ ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ غیرمعمولی مواقع سے یقینی طور پر فائدہ اٹھانے اور لوگوں کو اس کے نقصان سے تحفظ دینے کا موثر ترین اور اہم طریقہ ہے۔ چند لمحے قبل آپ نے گیبریلا کی زبانی اس کا تذکرہ سنا ہے۔

ہم دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے بے پایاں ہیجان کو دیکھ اور محسوس کر سکتے ہیں جس کے بارے میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی بدولت ترقی کی رفتار کو تیز کیا جا سکتا ہے۔ ہم کسی حد تک ایسا ہوتا بھی دیکھ رہے ہیں۔

مثال کے طور پر کینیا نے مصنوعی ذہانت کے بوٹ کو استعمال کر کے خواتین اور لڑکیوں کو تولیدی صحت کے حوالے سے جامع اور درست اطلاعات بہم پہنچائی ہیں۔

چلی نے مصنوعی ذہانت کی مدد سے ‘کریموس’ نامی ایسا ذریعہ بنایا ہے جس سے نوجوانوں کو سماجی تبدیلی اور پائیدار ترقی کے فروغ کے لیے اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔

یوکرین میں انسداد بدعنوانی کے لیے کام کرنے والے ادارے اور ٹیکنالوجی کمپنیوں نے باہم مل کر مصنوعی ذہانت پر مبنی ایسا نظام تیار کیا ہے جس سے ملک کے ثقافتی ورثے اور شہری تنصیبات پر حملوں کی درست تفصیلات جمع کی جا سکتی ہیں۔ اس سے یوکرین کو جنگی جرائم پر قانونی کارروائی کی تیاری کو بہتر بنانے میں مدد مل رہی ہے۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت میں ترقی کو اس انداز میں فروغ دینے کی صلاحیت پائی جاتی ہے جس سے لوگوں کی زندگیوں میں براہ راست بہتری آئے اور ایسا کرتے ہوئے ہمارے جمہوری نمونے پر اپنے اور دنیا بھر کے لوگوں کا اعتماد قائم ہو۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ فی الوقت دنیا 2030 تک پائیدار ترقی کے اہداف میں سے 12 فیصد تک ہی پہنچ سکی ہے۔ یوں ہم بہت پیچھے ہیں۔ تاہم مصنوعی ذہانت زرعی پیداوار میں بہتری سے لے کر بھوک سے نمٹنے اور بیماریوں کی نشاندہی اور ان کی روک تھام سے لے کر نوکریوں کی تخلیق اور کرہ ارض کی حفاظت کے لیے ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کی رفتار تیز کرنے تک، 80 فیصد اہداف کی جانب ہماری پیش رفت کو تیز کر سکتی ہے۔

دنیا بھر کا سفر کرتے ہوئے جو بات میں بار بار سن رہا ہوں وہ مصنوعی ذہانت کے امکانات کے بارے میں پائی جانے والی امید ہے۔ جمہوریتیں اس امید سے کام لے سکتی ہیں۔

تاہم مصنوعی ذہانت ایسا میدان بھی ہے جہاں جمہوریت کو مسائل بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے جہاں ہم اس اور دیگر ٹیکنالوجی کی طاقت سے بھلائی کا کام لے رہے ہیں وہیں بعض حکومتیں اسی ٹیکنالوجی کو منفی مقاصد کے لیے بھی استعمال کر رہی ہیں۔

وہ چہرے کی پہچان اور بوٹس جیسے مصنوعی ذہانت کے آلات کو اپنے ہی شہریوں کی نگرانی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اس سے صحافیوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کا کام لے رہے ہیں۔ وہ اس سے آزاد و شفاف انتخابات کو کمزور کرنے کے لیے غلط اور گمراہ کن اطلاعات پھیلانے اور ہمارے معاشروں کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کا کام لے رہے ہیں۔

ہماری جمہوریتیں مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے اپنی اختراعات کے حوالے سے کیے گئے فیصلوں کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے کام کرنے والے سرچ انجن ہمارے شہریوں کو ذرائع ابلاغ کے کم تعداد میں اور محدود حد تک متنوع ذرائع تک ہی رسائی دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ ٹیکنالوجی اس تفریق اور تعصب کو ہوا دینے کا باعث بھی ہے جس سے نسلی و قومی اقلیتیں غیرمتناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں۔

امریکہ ٹیکنالوجی سے متعلق ہمارے مستقبل کو اس انداز میں تشکیل دینے کا عزم رکھتا ہے جو مشمولہ ہو، اس میں تمام انسانوں کے حقوق کا احترام کیا جائے اور اس سے جمہوری اقدار اور اداروں کو قائم رکھا جا سکے۔ ہم نے ٹیکنالوجی سے متعلق اپنی اور اپنے جمہوری شراکت داروں کی صلاحیتوں پر تاریخی سرمایہ کاری کی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم اس سرمایہ کاری کو مصنوعی ذہانت کے انتظام کی کوششوں سے بھی جوڑ رہے ہیں۔ اس میں اختراع کے فروغ میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے تحفظ و سلامتی کو مضبوط بنانے اور نجی معلومات کی حفاظت، مساوات اور شہری حقوق کے یقینی بنانے سے متعلق ایک انتظامی حکم بھی شامل ہے۔ ہم نے مصنوعی ذہانت سے لاحق خدشات سے نمٹنے کا فریم ورک، مصنوعی ذہانت کے حوالے سے، حقوق کے مجوزہ قانون کا خاکہ اور اس ٹیکنالوجی سے متعلق تحفظ کا ایک نیا ادارہ بھی قائم کیا ہے۔ ٹیکنالوجی کی 15 بڑی کمپنیوں کی جانب سے رضاکارانہ طور پر کیے گئے وعدے اور مصنوعی ذہانت کے جدید نظام کو ترقی دینے والے اداروں کے لیے ایک بین الاقوامی ضابطہ اخلاق اس کےعلاوہ ہے۔

ہم مصنوعی ذہانت کو محفوظ اور قابل اعتبار بنانے کے لیے وسیع تر اور مشمولہ تعاون کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ اسی ہفتے اقوام متحدہ مصنوعی ذہانت کے بارے میں پہلی قرارداد بھی منظور کر رہی ہے۔ اس کے تحت یہ یقینی بنایا جانا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے پائیدار ترقی کو فروغ دیا جائے اور اس سے لوگوں کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی لائی جائے۔ اقوام متحدہ کے زیرقیادت اس قرارداد کو 75 ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ جو لوگ تاحال ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوئے ان سے میں کہوں گا کہ وہ بھی اس قرارداد کی حمایت کریں۔

یہ اتحاد یکساں اہمیت کے حامل دو اہداف کے حصول میں مدد دینے کے لیے مضبوط عالمی اتفاق رائے کا اظہار ہے۔ ان میں مصنوعی ذہانت کو محفوظ اور قابل اعتبار بنانا اور تمام لوگوں کو اس کے فوائد سے مستفید کرنا شامل ہیں۔ ہمیں ایسے انتظام اور صلاحیتوں کے حصول میں مدد دینا ہو گی جس سے ڈیجیٹل تقسیم کو کم کرنے میں مدد ملے۔

مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کے حوالے سے ہماری وسیع تر جمہوری سوچ کا محض ایک جزو ہے۔ ہم حکومتوں کی جانب سے لوگوں کی نگرانی اور جاسوسی کی ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے نمٹنے کے اقدامات کر رہے ہیں۔

گزشتہ برس صدر بائیڈن نے ایک انتظامی حکم جاری کیا جس کے تحت ملکی سلامتی کو لاحق خدشات کی صورت میں امریکہ کی حکومت ‘کمرشل سپائی ویئر’ استعمال نہیں کر سکتی۔ علاوہ ازیں، جب کسی غیرملکی عنصر کی جانب سے اس کے غلط استعمال بشمول انسانی حقوق کی پامالیوں یا شہری آزادیوں پر جبر کا خدشہ ہو تو تب بھی اس سے کام نہیں لیا جا سکتا۔

چھ ممالک نے حال ہی میں ‘کمرشل سپائی ویئر’ کے پھیلاؤ اور غلط استعمال کے بارے میں ہمارے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے ہیں اور وہ اُس 17 رکنی مضبوط اتحاد میں شامل ہو گئے ہیں جو یہ یقینی بنانے میں تعاون کر رہا ہے کہ سپائی ویئر کے استعمال میں عالمگیر انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام کیا جائے۔

ہم انسانی حقوق کے محافظوں کا آن لائن دفاع کر رہے ہیں۔ آج ہم اس حوالے سے ٹیکنالوجی کمپنیوں کو اپنی نوعیت کی پہلی رہنمائی جاری کر رہے ہیں جس سے انہیں انسانی حقوق کے محافظوں پر حملوں کی روک تھام، ان میں کمی لانے اور انہیں انصاف مہیا کرنے میں مدد ملے گی۔

ہم آزاد اور کھلے انٹرنیٹ تک رسائی کو تحفظ دے رہے ہیں۔ 2023 سے اب تک امریکہ کی حکومت نے وی پی این جیسے سافٹ ویئرز کے 30 ملین صارفین کو حکومتوں کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش جیسے حالات میں آن لائن رہنے میں مدد مہیا کی ہے۔ اس ضمن میں ہر ماہ انسداد سنسرشپ ٹیکنالوجی کے لیے مالی وسائل میں اضافے اور ان کی فراہمی برقرار رکھنے کے اقدام سے کام لیا گیا ہے۔

اس کام کے بہت بڑے فوائد ہوں گے۔ تاہم آئندہ تین روز میں یہاں ہونے والے کام، معلومات اور بہترین طریقہ ہائے کار کے تبادلے کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ ہم ناصرف اس چیلنج کو قبول کریں گے بلکہ اس پر قابو بھی پا سکتے ہیں۔ اگر ہم مصنوعی ذہانت کی تمام غیرمعمولی صلاحیتوں اور اس کی تمام اچھائیوں سے کام لے سکیں اور اس کے نقصانات پر قابو پا لیں تو اپنے ممالک اور دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لا سکتے ہیں۔

یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے لیکن ہمیں وقت کے اس تقاضے کو پورا کرنا ہے۔ میں اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہوں گا کہ ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی پا رہی ہے اور تبدیل ہو رہی ہے۔ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں ہمارا کام ہی آنے والی نسلوں کا مستقبل متشکل کرے گا۔ اسی لیے ہمیں فوری کوشش کرنا ہے اور جب ہم اکٹھے مل کر کام کرتے ہیں تو ہم کہیں زیادہ موثر اور مضبوط ہوتے ہیں۔

شکریہ۔ (تالیاں)


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-at-the-ministerial-conference-of-the-third-summit-for-democracy/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future